گو کاغذوں میں اُس کا نام حاجی شریف پورہ تھا لیکن علاقے کا ڈا کیا تک اُسے ابھی بھی روشن رسول نگر ہی کہتا تھا۔ حتی کہ ایک جلسے میں ایم پی اے حاجی شریف اللہ خود بھی جوش خطابت میں مائیک کو زور دائم کا مارتے ہوئے بھول گئے کہ انہوں نے کیسے وزیر اعلیٰ کو منا کر اس قدیم گاؤں کا نام تبدیل کروایا تھا۔ وہ بھی فرط جذبات میں اسے روشن رسول نگر ہی کہ بیٹھے۔
لوگوں کا عمومی خیال تھا کہ پاکستان بننے سے پہلے اس گاؤں میں تیل سے جلنے والی بڑی بڑی لالٹینیں کھمبوں پر لٹکا کرتی تھیں شاید اس لیے اس کا نام روشن رسول نگر تھا لیکن بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم تھا کہ جامع مسجد کے بالکل متصل ہندؤں کے مندر کے ساتھ لالہ روشن لال کی حویلی ہوا کرتی تھی ۔ لالہ جی کی کوئی اولاد نہ تھی لیکن پتہ نہیں کیوں سارے بازار کے چھوٹے بڑے انہیں پتا جی چتا جی کہہ کر بلاتے تھے۔
مولوی غلام رسول سے ان کی پکی دوستی تھی اور لوگ کہتے ہیں کہ دونوں نے اپنے اپنے آبائی گھروں میں سے تھوڑی تھوڑی زمین دے کر مسجد اور مندر کی بنیاد ایک ہی دن رکھی تھی اور شاید تب سے ہی اس گاؤں کانام روشن رسول نگر پڑ گیا تھا۔
بات تو دل کو نہیں لگتی لیکن گاؤں کے بڑے بوڑھے بتاتے ہیں کہ مولوی صاحب نے پہلے ہی دن ایک سلیٹ مسجد کے دروازے پر لٹکا دی تھی جس پر پکے رسم الخط میں چاک سے لکھا ہوا تھا کہ یہ مسجد شیعہ، سنی اور اہل حدیث سب مسلمانوں کے لیے ہے۔ علامہ صاحب کیا مقرر تھے۔ ہمیشہ صحابہ کی فضائل کی بات شروع کرتے اور واقعہ کربلا بیان کرتے تو اُن لوگوں کی بھی رورو کے کھلکھی بند جاتی ۔ اور تو اور کبھی کبھی تو جمعہ کے خطبے کے لے مولوی صاحب کے ساتھ کے گاؤں سے علامہ قلب عباس رضوی کو بلوا لیتے ۔ کئی نوجوان دبے دبے اس پر اعتراض بھی کرتے لیکن مولوی صاحب کے احترام کے پیش نظر کسی نے اس پر کھلم کھلا احتجاج نہ کیا البتہ ایک مرتبہ شیخ فتح محمد نے ایک نوجوان کو زور سے آمین کہنے پر کچھ سخت الفاظ ضرور کہے۔ مولوی صاحب یوں تو خاموشی سے سنتے رہے لیکن بعد میں شیخ صاحب کا ہاتھ پکڑ کر بولے۔
شیخ جی ! اللہ جانے اور اُس کا بندہ ، ہمیں کیا ضرورت ہے بیچ میں آنے کی
عید میلادالنبی کا جلوس اور محرم کا تعزیہ دونوں اسی مسجد سے نکلتے اور ختم ہوتے تھے۔ جلوس جب مندر کے سامنے سے گزرتا تو بچے پھولوں کی پتیاں اُس پر پھینکتے اور لالہ روشن بھی دنوں ہاتھ جوڑ کر اُس وقت تک سر جھکائے کھڑے رہتے جب تک پورا جلوس مندر کے آگے سے گزر نہ جاتا۔ لوگ پوچھتے کہ لالہ جی آپ رو کیوں رہے ہیں تو وہ رندھی ہوئی آواز میں کہتے کہ محمد صاحب پر ایسے مسلمانوں کا اجارہ تھوڑی ہے۔ مولوی صاحب کی بھی پکی عادت تھی کہ دیوالی کے دن لالہ جی کے گھر کچھ میٹھا بنا کر بھجوا دیتے۔
خطبے میں تو صرف اتنا ہی کہتے کہ دُنیا اللہ کا کنبہ ہے اور سب سے محبت کرنا اللہ کی سنت کو پورا کرنا ہے لیکن اکیلے میں چھوٹے بچوں کو پیار سے کہہ ہی دیتے کہ اگر تم بھی دیے جلا لیا کرو تو کوئی حرج نہیں۔
محلے میں چند گھر سکھوں کے بھی تھے جو سارے چھوٹا موٹا زمیندارہ کرتے تھے البتہ حوالدار پریت کی ڈھوری سب سے اونچی اور بڑی تھی۔ چھوٹے بچوں نے تو صرف پریت سنگھ کا نام ہی سنا تھا البتہ ادھیڑ عمر اور بوڑھے اکثر پریت سنگھ کا ذکر کرتے اور بچوں کو اُن کی دلیری کے قصے سناتے ۔ سچ جھوٹ اللہ جانے لیکن مشہور تھا کہ پریت سنگھ نے ایک ہی حملے میں 30 جرمن مارے تھے جو صاحب بہادر کو پکڑ کر لے جارہے تھے
اُس کی بیٹھک میں بابا کی تصویر کے ذرا نیچے ایک مدھم سی تصویر قریباً سب لوگوں نے کئی بار دیکھی تھی جس میں ایک انگریز افسر پریت سنگھ کو تمغہ پہنا رہا تھا۔ محلہ میں خبر پھیلی کہ پریت سنگھ برما سے گھر آ رہا ہے تو اُس کے بھائی نے سب سکھوں کے گھر پر نئی سفیدی کروائی۔ باقی لوگوں نے اس قسم کا خرچہ تو نہیں کیا لیکن سچی بات ہے کہ سب بہت خوش تھے۔
سا موچاچا کا تانگہ ابھی کافی دور ہی تھا کہ بچوں نے تالیاں بجانا اور لڑکیوں نے گیت گانا شروع کر دیئے۔ حالانکہ تانگے میں صرف حوالدار پریت سنگھ ہی بیٹھا تھا لیکن سامو چاچا ہمیشہ کی طرح تانگے کی بٹھی پر بیٹھا اپنی چھڑی کو پیسے میں اور زبان کو دانتوں میں پھنسا کر عجیب سی آوازیں نکالتا دور سے پہچانا گیا۔ دو وزنی صندوق اور ایک وزنی تھیلا پچھلی سیٹ پر اس طرح دھرے تھے کہ اُس کے وزن سے گھوڑے کی طنابیں کسی ہوئی تھیں۔
پریت سنگھ کی ڈیوڑھی کے باہر چبوترے پر بے بی تیل کی شیشی لے کر کھڑی تھی تا کہ تیل پر بیت سنگھ کے پاؤں پر گرا کر اسے گھر کے اندر لے جائے لیکن پریت سنگھ نے بھی حد کر دی اُدھر جانے کی بجائے تانگے کو مسجد اور مندر کے بیچ بنے ہوئے تھڑے کے سامنے رکوا کر تقریباً بھاگتا ہوا مولوی غلام رسول اور پھر لالہ جی کے پیروں پر گر گیا جو قدرے چھوٹے چھوٹے موڑھوں پر بیٹھے اور لوگوں کی طرح پریت سنگھ کا انتظار کر رہے تھے۔
شاید اُسی روز پچھلے پہر دونوں نے مشورہ کر کے پریت سنگھ کے گھر سے گرنتھ صاحب منگوا کر مندر کے ساتھ والے کمرے میں رکھوادی اور سب سکھوں کے گھر پیغام بھجوادیا کہ تم سب ساتھ والے گاؤں کے گردوارے کی بجائے یہیں ماتھا ٹیک لیا کرو۔
لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ پرانے گورنمنٹ پرائمری سکول کے ایک کمرے میں بی بی مریم کی تصویر بھی لالہ جی اور مولوی صاحب ہی نے لگوائی تھی تا کہ دو چار عیسائی خاندان کے لوگ بھی اتوار کے روز کہیں دور کے گر جا گھر نہ جائیں ۔ روشن رسول نگر کے بارے میں یہ سب باتیں ڈاکٹر عاصم کے لیے پرستان کی کہانی کی طرح تھیں۔
یوں تو اس کے دادا نے اُردوزبان میں چھوٹی موٹی کئی کہانیاں لکھی تھیں لیکن اُس کی آپ بیتی’ دیس سے پردیس تک عاصم نے نجانے کتنی مرتبہ پڑھی تھی۔
گو اُس کے والد اور وہ خود امریکہ ہی میں پیدا ہوئے پھر بھی شاید یہ اُس کے دادا کی تربیت تھی کہ خاندان کے سب لوگ بالکل صاف اردو بولتے اور سمجھتے تھے۔ اس کے دادا روشن رسول نگر سے ہی اپنی گھر بیچ کر شہر اور پھر امریکہ گئے تھے۔
آپ بیتی کا پہلا بات ” میرا روشن رسول نگر ڈاکٹر عاصم کو قریبا زبانی یا تھا بلکہ ایک دو بار اُس نے سوچا بھی کہ اس کا انگریزی ترجمہ کر کے چھپوایا جائے لیکن مصروفیت کے باعث وہ اسے عملی جامہ نہ پہنا سکا۔
کراچی میں سرجری کی بین الاقوامی کانفرنس کے مہمان خصوصی کی دعوت ملی تو ڈاکٹر عاصم کو کانفرنس سے زیادہ روشن رسول نگر کی خواہش پیدا ہوئی۔ دوروزہ کانفرنس کے افتتاح پر ڈاکٹر عاصم نے اپنے میزبانوں سے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو سب نے روشن رسول نگر کے قصے تو مزے لے کر سنے لیکن کسی نے بھی اس بات سے اتفاق نہیں کیا کہ ڈاکٹر عاصم کو وہاں جانا چاہئے۔
چھوٹی سڑک پر APV وین کا سفر تو خیر سے ایک ایڈونچر ہی لگ رہا تھا لیکن پچھلے ہفتے چالیسویں کے جلوس پر ہونے والے خودکش دھماکے اور اُس کے نتیجے میں علاقے بھر میں پھیلی ہوئی کشیدگی کا سن پر وہ بھی کچھ پریشان سا ہو گیا۔
اوپر سے ایک اچھے امریکی شہری ہونے کی وجہ سے اُس نے امریکی سفارتخانے میں فون کرنے کی غلطی بھی کر لی ۔ وہاں سے تو گویا سختی سے ممانعت ہوگئی۔ ڈاکٹر عاصم جس قدر اُداس تھا شاید زندگی بھر کبھی اتنا اداس نہیں ہوا تھا۔ اُسے لگا کہ اُس نے اپنے دادا کو ناراض کر دیا ہے۔ وہ اپنی زندگی میں دوسری مرتبہ یہاں آیا تھا اور نجانے پھر کب یہاں آنے کا موقع ملے ۔ رشتے کے ایک چچا کے علاوہ جو راولپنڈی میں تھے کوئی قریبی رشتہ دار یہاں نہیں رہتا تھا۔ اُس نے دُکھی دل میں یہ بھی سوچا کہ شاید وہ پھر کبھی بھی یہاں نہ آئے۔
ایک طرح کی ڈپریشن میں اُس نے ضرورت سے زیادہ کھانا کھایا اور ٹب میں گرم پانی بھر کر ادھ کھلی آنکھوں کے ساتھ لیٹ گیا۔ اچانک اُس کی آنکھیں کشادہ ہوئیں اور وہ قریباً چھلانگ لگا کرب سے باہر آ گیا۔ اُس نے اپنے سوٹ کیس سے سیاہ رنگ کا برانڈ ڈشلوار قمیض نکال کر پہن لیا جو اُس نے کراچی سے ہی خریدا تھا۔ اُس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ روشن رسول نگر ضرور جائے گا۔ اُس کے گندمی رنگ اور جنوں جیسے ڈیل ڈول سے کسی کو کیا گمان ہونا تھا کہ وہ ایک پکا ڈھکا امریکی ہے۔ اُس نے ایک چھوٹے سے تھیلے میں چند چیزیں رکھیں اور کمرے سے باہر نکل آیا۔
ابھی وہ لفٹ تک ہی پہنچا تھا کہ اچانک ایک خیال اُس کے ذہن میں شرارے کی طرح چمکا اور وہ کمرے میں واپس آ گیا۔ اُس نے سیاہ شلوار قمیض اتار کر ڈھیلی ڈھالی سی جینز کی پینٹ اور شرٹ پہنی اور پھر سے کمرے سے باہر آ گیا۔ ابھی شام کے چارہی بجے تھے ۔ جب وہ روشن رسول نگر کے بس اڈے سے گاؤں کے چوک بازار کی طرف چلنا شروع ہوا لیکن جانے سردیوں کے سورج کو ڈوبنے کی اتنی جلدی کیوں ہوتی ہے۔ شام کی سرمئی روشنی آسمان سے دھیرے دھیرے نیچے اتر رہی تھی۔ اُس کا دل بہت زور سے دھڑک رہا تھا اُسے لگا جیسے کوئی اپنا محبت کے مقناطیس سے اُسے اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔
ولیس سے پر دلیس تک‘ تک کے صفحات پر لکھے ہوئے لفظ گویا اُس کے ذہن میں معصوم بچوں کی طرح قلقاریاں بھر رہے تھے اور اُس کے دل کی حالت اُس مریض کی طرح تھی جو آنکھوں کے آپریشن کے بعد پٹی کھلنے کا منتظر ہوتا ہے تاکہ اندھیرے میں قیاس کیے ہوئے مناظر کی اصلی جھلک دیکھ سکے۔
ریلوے اسٹیشن پر لگے فرنگی زمانے کے کھمبوں جیسا کھمباد یکھتے ہی اُسے تیل سے جلتی ہوئی لالٹین نظر آنے لگی جو دراصل اُس وقت اُس کھمبے پر نہیں تھی البتہ ایک کپڑے کا تنا ہوا بیر ضرور نظر آیا جس پر لکھا تھا ، کافر کافر شیعہ کافر پتہ نہیں کیوں اُس کی نظروں کے سامنے اُس کے دادا کا چہرہ گھوم گیا جب وہ نیو یارک کے ہسپتال میں آخری سانس لے رہے تھے۔
دکانوں پر اکا دُکا گاہک ضرور تھے لیکن پورے بازار میں عمومی طور پر ایک خوفناک بے رونقی اور سناٹا تھا۔ سڑک پر جلے ہوئے ٹائروں کی راکھ اور ربڑ کی بونمایاں تھی۔ شاید آج بھی یہاں سے احتجاجی جلوس گذرا تھا۔
اُسے کچھ خوف سا محسوس ہوا ۔ شاید اسے یہاں نہیں آنا چاہئے تھے۔ لیکن اس کے باوجود اُس کے قدم بڑھتے رہے یہاں تک کہ اُسے جامع مسجد کا صدر دروازہ نظر آنے لگا جس سے ذرا پہلے ایک چبوترہ سا بنا ہوا تھا۔ اُس کی آنکھیں دو موڑھے تلاش کرنے لگیں۔ ساتھ والی دو منزلہ عمارت کے نیچے کچھ دکا نہیں تھیں جن کے شٹر ز گرے ہوئے تھے اور اوپر شاید کوئی گھر تھا۔ وہ کچھ لمحے وہاں رُکا ضرور لیکن پھر مسجد میں داخل ہو گیا۔ وضو خانے میں لوگ نماز کی تیاری کر رہے تھے۔ اسی اثناء میں مغرب کی اذان ہونے لگی۔
پہلی صف کے باریش بزرگ نمازیوں کے بیچ میں اگر کوئی کلین شیو نگے سرا دھیٹر عمر پینٹ بابو کھڑا ہو جائے تو چاہے کوئی منہ سے کچھ بھی نہ کہے لیکن ترچھی نظریں اُس کا پیچھا ضرور کرتی ہیں لیکن وہ اپنی سوچوں میں گم تھا۔ البتہ جماعت سے کچھ پہلے ساتھ والے نمازی نے انگلی کے اشارے سپیٹ کے پانچے اونچے کرنے کے لیے ضرور کہا۔ اُس نے ایک پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ فوراً اس کی تعمیل کی۔
نماز کے بعد اُس کا دل چاہے کہ مسجد کے مختلف حصوں کی کچھ تصاویر اُتارے لیکن پتہ نہیں کیوں اُسے اُس کی جرات نہ ہوئی اور وہ باہر کی طرف چلنے لگا۔
ابھی اُس نے اپنے کینوس کے جوتوں کے تسمے باندھے ہی تھے کہ کسی نے اُس کے کندھے پر نرم سا ہاتھ رکھا۔
اُس نے فوراً گھوم کر دیکھا تو وہاں کوئی نہ تھا۔ شاید اُسے دہم ہوا تھا لیکن اچانک اُس کا دل جیسے ایک لمحے کے لیے رک سا گیا اور اُس نے اپنے پورے جسم میں ایک سردی کی لہر دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔
وضو خانے کے پیچھے اُسے ایک قبر نظر آئی ۔ گو کچھ سالوں سے وہ قریب کی عینک لگائے بغیر پڑھ نہ سکتا تھا لیکن شام کے دھندلکے میں بھی اُسے قبر کا کتبہ صاف نظر آیا۔ موت سے متعلق فارسی کے ایک شعر کے نیچے قدرے بڑے بڑے الفاظ میں لکھا تھا۔
مولوی غلام رسول رحمتہ اللہ علیہ
اُس نے اپنے تھیلے کو دونوں گھٹنوں میں دبایا اور ہاتھ اُٹھا کر فاتحہ پڑھنے لگا۔ دعا مانگنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے لیکن اُسے کچھ پتہ نہ چلا کہ وہ آنکھیں بند کر کے کتنی دیر وہاں کھڑا رہا۔ ” دلیس سے پردیس“ کے لفظ گویا باتیں کرتے ہوئے ایک قطار کی طرح اُس کے سامنے سے گذرتے رہے۔ پھر خاموشی کا ایک طویل لمحہ آیا۔ اُس نے اپنے دائیں ہاتھ سے اپنا تھیلا سنبھالا اور بائیں ہاتھ سے پشت سے بھیگی ہوئی آنکھوں کو پونچھتا ہوا حاجی شریف پورہ کے بس اسٹینڈ تک جانے کے لیے مسجد سے نکل آیا۔